ولادت سے وفات تک:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن ابی
طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے ایک روایت کے مطابق اندرون خانہ کعبہ
چھٹی صدی عیسوی میں پیدا ہوئے۔ صغرسنی
میں بعض وجوہ کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
کفالت میں آگئے اور دربار نبوت سے آخر تک جڑے رہے۔ دس سال کی
عمر میں اسلام قبول کیا۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں
نے بتوں کی پوجا کبھی نہیں کی، اور آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کے بعد مجھ سے پہلے کسی نے خدا کی عبادت نہیں کی۔ابتدائی
عمر سے ہی حضور سے از حد زیادہ محبت کرتے تھے۔ جب کوہ صفا پر
چڑھ کر حضور نے اعلان نبوت کیاتو آپکی آواز پر کسی نے بھی
کان نہیں دھرا، مگر حضرت علی جو اس وقت عمر میں صرف
۱۵/ سال کے تھے، کہا: ”گوکہ میں عمر میں چھوٹا ہوں اور
مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے، اورمیری ٹانگیں پتلی ہیں،
تاہم آپ کا باور دست و بازو بنوں گا۔ جس وقت آپ کی عمر ۲۲
سال کی تھی آپ اپنی جان کی بازی لگاکر حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر پوری رات لیٹے رہے اور
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے نکل گئے۔ اس کے تین
دن بعد خود بھی حضور سے جاملے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد جب نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مظاہرہ کیا اور جو کارہائے نمایاں
انجام دئیے وہ آپ کی زندگی کا اہم باب ہے۔ سوائے ایک
جنگ کے آپ نے ہر جنگ میں شرکت کی اور داد شجاعت دیا۔
غزوئہ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنگ میں
شرکت سے روک دیا اور اہل بیت کی حفاظت ونگرانی کے لیے
مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دیا تو اس کا آپ کو بہت قلق
ہوا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ان کے اعزاز کو
بلند کیا کہ ”علی تم اسے پسند نہیں کرتے کہ میرے نزدیک
تمہارا وہ مقام اور درجہ ہو جو ہارون کا موسیٰ کے نزدیک تھا۔ حضرت علی کی اہمیت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنی تھی اس کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
بالعموم اہم اور مشکل ترین امور کی انجام دہی کے لیے حضرت
علی کو مامور فرماتے۔ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندہ
رہے، دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر لحاظ سے حضور کی فرماں برداری اور
اطاعت کرتے رہے۔ اسی جاں نثاری کو دیکھ کر حضور نے غدیر
خم کے خطبہ میں فرمایا کہ: ”جو علی کا دشمن ہے وہ میرا بھی
دشمن ہے اور جو علی کا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے۔ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ سوم کے زمانے تک
میں بھی اہم کارنامے اور خدمات انجام دیں اور جنگی معرکے
سرکیے۔ اور جب خود خلیفہ بنے تو باوجود پورے ملک میں
بدامنی اور خلفشاری کے حالات پر قابوپائے، مگر دشمنوں نے آپ کو زیادہ
دن حکومت کرنے نہیں دیا اور آپ کو قتل کردیا۔ آپ کا
انتقال ۴۰ھء میں ہوا۔ کل ۴/سال نو مہینے
حکومت کرسکے۔ آپ کی تعلیمات، خطبات، وصایا، انشاپردازی
اور اخلاقی اقدارکا شاہکار مجموعہ نہج البلاغہ ہے، جسے شریف رضی
نے جمع کیا ہے۔ پیش نظر مضمون میں حضرت علی کے بعض اہم اخلاقی
قدروں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو انسانوں کے لیے مینارئہ
نور ہیں۔
نبی کے اخلاق کا اثر
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی بعثت کے مقاصد میں ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ
آپ خلق خدا کو ادب و احترام اور اخلاقی اقدار و تہذیب کی تعلیم
دیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا:
”انا بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“ (میں اخلاق کی تکمیل
کے لیے بھیجا گیا ہوں) اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے
آپ کی اس خوبی کو قرآن کریم میں اس انداز میں بیان
کیا ہے: ”انک لعلی خلق عظیم“ (اے نبی ! آپ اخلاق کے اعلیٰ
مرتبے پر فائز ہیں) جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دارفانی
سے رخصت فرماگئے، تو کچھ لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں
حاضر ہوکر یہ معلوم کرنا چاہا کہ آپ کا اخلاق کیساتھا، تو انھوں نے
جواب دیا : ”کان خلقہ القرآن“ یعنی جو کچھ قرآن میں
بیان کیاگیا ہے وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا
اخلاق تھا۔ اسی پس منظر میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کے
اخلاق و کردار اور ان کی تعلیمات کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔
چوں کہ آپ درِ رسالت سے
ابتدائی عمر سے آخر تک جڑے رہے، اس لیے ان کے بارے میں یہ
کہا جاسکتا ہے جو طرز عمل اور اخلاق و کردار حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کا تھا اسی کو حضرت علی نے اپنی زندگی میں نافذ کیا۔
چنانچہ علامہ سید ابوالحسن ندوی اس نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے خاندانی اورنسبی تعلق، ایک عمر کی رفاقت اور روز
مرہ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی وجہ سے سیدنا
علی کرم اللہ وجہہ کو آپ کے مزاج افتاد طبع سے اور ذات نبوی کی
خاص صفات و کمالات سے گہری مناسبت ہوگئی تھی، جن سے اللہ تعالیٰ
نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا تھا، وہ آپ کے میلان
طبع اور مزاج کے رخ کو بہت باریک بینی اور چھوٹی بڑی
باتوں کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے، جن کا آپ کے رجحان پر اثر پڑتا ہے، یہی
نہیں بلکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو ان کے بیان کرنے
اور ایک ایک گوشہ کواجاگر کرکے بتانے میں مہارت تھی، آپ
نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و رجحان اور طریق تامّل کو
بہت ہی بلیغ پیرایہ میں بیان کیا ہے۔“
اخلاق فاضلانہ کی اعلیٰ مثال
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اخلاق
اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے وقت ان عوامل کو بھی اذہان و
قلوب میں مستحضر کرنا چاہئے کہ جن کی وجہ سے آپ اپنے اصحاب میں
ممتاز و منفرد نظر آتے ہیں۔ باوجود خانگی ذمہ داریوں کے
حب نبی میں سرشار اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
راحت رسانی کے لیے ہر وقت بے چین اور مضطرب نظر آتے ہیں۔
اپنے گھر فاقہ ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھنا
ایک پل کے لیے گوارہ نہیں۔ یہاں تک کہ محنت و مشقت
اور مزدوری کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راحت رسانی
کا انتظام فرماتے۔ ابن عساکر کی روایت ہے کہ:
”ایک روز رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے گھر میں فاقہ تھا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو
معلوم ہوا تو وہ مزدوری کی تلاش میں نکل گئے، تاکہ اتنی
مزدوری مل جائے کہ رسول خدا کی ضرورت پوری ہوجائے۔ اس
تلاش میں ایک یہودی کے باغ میں پہنچے اور اس کے باغ
کی سینچائی کا کام اپنے ذمہ لیا، مزدوری یہ
تھی کہ ایک ڈول پانی کھینچنے کی اجرت ایک
کھجور، حضرت علی نے سترہ ڈول کھینچے۔ یہودی نے انہیں
اختیار دیا کہ جس نوع کی کھجور چاہیں لے لیں،حضرت
علی نے سترہ عجوہ لیے
اور رسول خدا کی خدمت میں پیش کردیا۔ فرمایا:
یہ کہاں سے لائے؟، عرض کیا: یا نبی اللہ مجھے معلوم ہوا
ہے کہ آج گھر میں فاقہ ہے اس لیے مزدوری کے لیے نکل گیا
تاکہ کچھ کھانے کا سامان کرسکوں۔ رسول نے فرمایا: تم کو اللہ اور اس
کے رسول کی محبت نے اس پر آمادہ کیا تھا۔ عرض کیا ہاں یا
رسول اللہ! رسول نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ایسا
کوئی نہیں جس پر افلاس اس تیزی سے آیا ہو جیسے
سیلاب کا پانی اپنے رخ پر تیزی سے بہتا ہے اور جو اللہ
اور اس کے رسول سے محبت کرے اس کو چاہیے کہ مصائب کے روک کیلئے ایک
چھتری بنالے، یعنی حفاظت کا سامان کرلے۔“
اندرون خانہ اخلاق وکردار کا مظاہرہ
ازدواجی زندگی میں شوہر
اور بیوی کی مثال گاڑی کے اس پہیے کی طرح ہے
کہ اگر ان میں سے کوئی ایک اپنا کام کرنا چھوڑ دے تو تھوڑی
دیر کے لیے اسے گھسیٹا تو جاسکتا ہے مگر چلایا نہیں
جاسکتا۔ ازدواجی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں میں
تال میل ہو، دونوں ایک دوسرے کی محبت میں سرشار ہوں اور
دونوں ایک دوسرے کی ضروریات و حقوق کا پاس کرتے ہوں۔ تب ہی
دونوں کی زندگی آرام و سکون سے بسر ہوسکتی ہے۔ آج کے
معاشرہ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں کتنی
بے چینی اور خلفشاری ہے، بالخصوص موڈرن طبقہ میں تو دونوں
ایک دوسرے کو کسی خاطر میں نہیں لاتے اور مغرب میں
تو یہ چیز فیشن بن گئی ہے، جس کے نتیجہ میں
خرابیاں ہی خرابیاں نظر آتی ہیں۔ ایسے
لوگوں کو چاہیے کہ وہ حضرت علی کے اخلاق و کردار کا مطالعہ کریں
اور اس پر عمل کریں، جو مشعل راہ ہیں۔ روایتوں میں
آتا ہے کہ حضرت علی باوجود غربت و افلاس کے اپنی زوجہ محترمہ خاتون
جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی راحت رسانی میں کوئی
کسر نہیں چھوڑتے، خود بھوکے رہ جاتے مگر اپنی اہلیہ کے خورد و
نوش کا انتظام فرماتے۔ یہاں تک ان کی راحت رسانی کے لیے
اپنے دونوں بیٹے حضرت حسن اور حسین کو بھی ان سے دن بھر کے لیے
جدا کردیتے تاکہ بچے کی محبت سے ماں کی ممتا متاثر نہ
ہوسکے۔ طبرانی کی روایت ہے کہ:
”حضرت فاطمہ نے بتایا کہ ایک
روز رسول خدا ان کے گھر آئے اور فرمایا میرے بچے کہاں ہیں؟ (یعنی
حسن اور حسین) فاطمہ نے کہا: آج
ہم لوگ صبح اٹھے تو گھر میں ایک چیز بھی ایسی
نہ تھی جس کو کوئی چکھ سکے۔ ان کے والد نے کہا: میں ان
دونوں کو لیکر باہر جاتا ہوں اگر گھر پر رہیں گے تو تمہارے سامنے روئیں
گے اور تمہارے پاس کچھ ہے نہیں کہ کھلاکر خاموش کرو۔ چنانچہ وہ فلاں یہودی
کی طرف گئے ہیں۔ رسول وہاں تشریف لے گئے، دیکھا یہ
دونوں بچے ایک صراحی سے کھیل رہے ہیں اور ان کے سامنے بچا
کھچا ادھ کٹا قسم کا کھجور ہے۔ رسول نے فرمایا: علی اب بچوں کو
گھر لے چلو، دھوپ بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے کہا: یا رسول اللہ آج
صبح سے گھر میں ایک دانہ نہیں ہے، تو اگر آپ یا رسول اللہ
تھوڑی دیر تشریف رکھیں تو میں فاطمہ کے لیے
کچھ بچے کھچے کھجور جمع کرلوں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم بیٹھ گئے، یہاں تک کہ فاطمہ کے لیے کچھ بچے
کھچے کھجور جمع ہوگئے۔ حضرت علی نے کھجور ایک کپڑے میں باندھ لیے۔“
بڑے اور چھوٹے کا دائرہ کار
ایک صالح معاشرہ کی تشکیل
میں بڑے اور چھوٹے کا ادب و احترام اور شفقت و ہمدردی ازحد ضروری
ہے۔ ایک باپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے بچوں کے
ساتھ ہی اچھا برتاؤ کرے اور ان کے ساتھ شفقت و ہمدردی سے پیش
آئے اس کی دلجوئی اوراس کے کھیل کود، سیر و تفریح
کے مواقع بھی فراہم کرے بلکہ سماج کے اور دوسرے بچوں کے بھی اس کے دل
میں محبت و ہمدردی ہونی چاہیے۔ اوراس کے برعکس
چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ ادب و احترام کا مظاہرہ کریں۔ دراصل ایک
گونہ ذمہ داری بڑوں کی ہے کہ وہ اپنے چھوٹوں کی زندگی
بنانے اور سنوارنے پر متوجہ ہوں۔ اس کو اچھی تعلیم دیں
اوراس کی عمدہ سے عمدہ تربیت کریں لغویات سے بچائے رکھیں
اور یہ تمام خوبیاں جو سراسر اخلاق پر مبنی ہیں حضرت علی
کرم اللہ وجہہ میں بدرجہ اتم موجود تھی، جس طرح حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم بچوں کے حق میں بہت شفیق تھے، ان سے ہنسی
کھیل کرتے،اور ان کی دل جوئی کرتے، ٹھیک یہی
طرز عمل آپ کا تھا۔ اور ایسے لوگوں کو پسند کرتے جو بچوں کی
دلجوئی اور دل بستگی کی باتیں کرتے تھے، اور ان کے سامنے
وہی بات اور کام کرتے جس کا مثبت اثر بچوں کی ذات پر پڑے۔ یہاں
تک کہ اپنے اقوال حکیمانہ سے اس امر کی بھی وضاحت کی ہے
کہ:
”باپ کا بیٹے پر اور بیٹے کا
باپ پر حق ہے۔ باپ کا حق یہ ہے کہ بیٹا ہر حال میں اس کی
اطاعت کرے، الا یہ کہ باپ کسی معصیت کی بات کا حکم دے، اس
میں اس کا اتباع نہ کیا جائے، اور باپ پر بیٹے کا یہ حق
ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، اچھی تربیت کرے اور قرآن پڑھائے۔“
آج ہمارے معاشرہ میں باپ اور بیٹے
دونوں کو ایک دوسرے سے شکایت ہے، اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق کی
ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں اور بعضے وقت صورت حال
بہت خراب ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتی
ہے کہ ہم نے اس اخلاقی تعلیمات کو سرے سے بھلارکھا ہے۔ درخت
اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور باغبان درخت کو بنانے اور سنورانے میں کتنی
محنت اور جاں فشانی کرتا ہے ہم اور آپ سبھی جانتے ہیں۔ آج
ہم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رجوع کرتے ہیں
مغربی طریقہٴ تعلیم کی طرف اور قرآن جو سراپا ہدایت
ہے اسے پس پشت ڈال رکھا ہے۔
حقوق النسا:
عصر حاضر میں یہ پروپیگنڈہ
بڑے پیمانے پر پھیلایا جارہا ہے اور خاص کر مغربی ذہن
رکھنے والے حضرات کہتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کو کسی قسم کا
کوئی حق حاصل نہیں ہے، اسلام نے عورتوں کے ساتھ سختی کرنے اور
انہیں ستانے کا حکم دیا ہے۔ ہم اس سلسلے میں تفصیل
میں نہ جاکر صرف یہ کہتے ہیں کہ دنیا کے جتنے بھی
مذاہب ہیں اور اس میں عورتوں کو جس قدر حقوق اورآزادی حاصل ہے
وہ اسلام کا رہین منت ہے، اگر اسلام نہ آتا تو آج بھی عورت ذلیل
و خوار ہی رہتی اور مغرب نے عورت کو جو آزادی دے رکھی ہے
اس سے کہاں اس کی تحسین ہوتی ہے بلکہ تحقیر ہوتی
ہے۔ اسلام نے ہرحال میں عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی
ہے۔ جنگ ہو یا امن کی حالت میں، گھر میں ہو یا
کسی دینی محفل میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤکرنے کا حکم دیاگیا
ہے، جس کے شواہد قرآن و حدیث میں موجود و محفوظ ہیں۔ یہاں
تک کہ ”نہج البلاغہ“ جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعلیمات اور
خطبات کا مجموعہ ہے اس میں بھی کئی مقامات پر روشنی ڈالی
گئی ہے۔ بلکہ حضرت علی نے جنگ صفین کے موقع پر اپنے
لشکروں کو رموز جنگ و حرب بتائے اس میں بھی اس بات پر زور دیا
کہ ہر حال میں عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔ آپ نے فرمایا:
”لڑائی میں تم پہل نہ کرو،
دشمن کو پہل کرنے دو، اس لیے کہ تم بحمداللہ حق و حمایت پر استوار ہو،
ان کے حملے سے پہلے تمہارا حملہ نہ کرنا ان پر تمہاری طرف سے ایک اور
حجت ہوجائے گا، اگر بحکم خدا دشمن کو شکست ہو تو نہ بھاگنے والے کوقتل کرنا، نہ
ہتھیار ڈال دینے والے کو، نہ کسی زخمی کو مارنا، نہ کسی
عورت کو ستانا اگرچہ وہ تمہیں گالیاں دیں اور تمہارے افسروں کو
کوسیں، عورتیں کمزور ہوتی ہیں اپنے جسم میں بھی
نفس میں بھی۔ ہمیں عورتوں سے تعرض نہ کرنے کا حکم دیا
جاتا تھا، حالاں کہ وہ مشرکین تھیں۔ جاہلیت میں بھی
اگر کوئی آدمی عورت کو پتھر یا لاٹھی سے ماردیتا
تھا تو خود بھی رسوا ہوجاتا تھا اور اس کی نسلوں کو بھی نام
دھرا جاتا تھا۔“
احترام مسلم
آپ نے زمام حکومت سنبھالتے ہی اس
بات پر زور دیا کہ ہر حال میں مسلمانوں کا احترام کیا جائے اور
ان کے خون کا ضیاع نہ ہو۔ حالاں کہ جس خلفشاری اور بے چینی
کے عالم میں آپ مسند خلافت پر آراستہ ہوئے اس کا تقاضا تھا کہ ہر طرف جنگ و
جدال کا بازار گرم ہوجائے، مگر آپ نے بڑے ہی دور اندیشی اور خیر
اندیشی سے کام لیکر حالت پر کسی حد تک قابو پایا
اور اخلاق و کردار کا جو مظاہرہ آپ نے اس حالت میں کیا وہ سنہرے حروف
سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ آپ نے اپنے ابتدائی خطبہ میں جمعہ کے
دن منبر پر چڑھ کر لوگوں کو خطاب کیا اس میں اخلاقی قدروں کی
جلوہ نمائی ہے جو دل کی زبانی ہے۔ فرمایا:
”اللہ تعالیٰ اپنی کتاب
کو ہادی بناکر بھیجا ہے، جو خیر و شر کو وضاحت کے ساتھ بتاتی
ہے، لہٰذا خیر کو اختیار کیجئے اور شر سے کنارہ کش رہیے۔
اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کو حرمت کا درجہ دیا
ہے، ان میں سب سے فائق حرمت مسلمان کی ہے۔ توحید و اخلاص
کے ذریعہ مسلمانوں کے حقوق کو اللہ نے مضبوطی سے مربوط کردیا
ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان محفوظ رہیں، الا
یہ کہ دین و احکام شریعت ہی کا تقاضا ہو کہ مسلمان کا
احتساب کیا جائے اوراس پر قانون شرعی جاری کیا جائے، کسی
مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو ایذا
پہنچائے، الا یہ کہ ایسا کرنا واجب ہو، عوام و خواص دونوں کے حقوق ادا
کرنے میں عجلت سے کام لیجیے، لوگ آپ کے سامنے ہیں اور پیچھے
قیامت ہے جو آگے بڑھ رہی ہے، اپنے آپ کو ہلکا پھلکا رکھیے کہ
منزل تک پہنچ سکیں، آخرت کی زندگی لوگوں کی منتظر ہے، خدا
کے بندوں اور ان کی سرزمین کے حقوق کی ادائیگی کے
سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہیے، بہائم اور زمین کے بارے میں
بھی (قیامت میں) آپ سے سوال ہوگا، پھر میں کہتا ہوں کہ
اللہ کی اطاعت کیجیے اور اس کی معصیت و نافرمانی
سے بچئے، اگر آپ خیر کا کام دیکھیں اس کو اختیار کریں
اور اگر شر دیکھیں تواس کو چھوڑ دیں: ”وَاذْکُرُوْا
اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُسْتَضْعَفُوْن فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ
اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ
بِنَصْرِہ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ“ (اور یاد کرو جس وقت تم تھوڑے تھے
مغلوب پڑے ہوئے ملک میں ڈرتے کہ اچک لیں تم کو لوگ پھر اس نے تم کو
ٹھکانا دیا اور قوت دی تم کو اپنی مدد سے اور روزی دی
تم کو ستھری چیزیں تاکہ تم شکر کرو۔ ”انفال“)
ارکان سلطنت کی حکم عدولی
حضرت علی نے ارکان سلطنت اور رعایا
کی ان کمزوریوں اور حکم عدولیوں کا بھی احتساب کیا
ہے جو اولی الامر کی آواز پر کان نہیں دھرتے اور مسلسل حکم عدولی
کے مرتکب ہوتے ہیں جس سے سلطنت کے نظام میں خلل واقع ہوتا ہے۔
مگر آپ یہاں بھی اخلاقی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہیں اور مشیران
سلطنت کو بڑے ہی لطیف پیرائے میں نصیحت کرتے ہیں
کہ ان کے اعمال و افعال سے سلطنت کے لیے مسائل و مشکلات پیدا ہورہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کی حکومت میں جو خلفشار پیدا ہوا
وہ آپ کا حد سے زیادہ امرا اور ارکان سلطنت کے ساتھ نرمی و ملاطفت کا
معاملہ رہا۔ اور اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو ہمیشہ معاف اور نظر انداز
کرتے رہے، مگر آپ نے اسے بھی اپنے لیے ایک آزمائش ہی
سمجھا۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا:
”میری ان لوگوں کے ذریعہ
آزمائش ہورہی ہے جو اطاعت نہیں کرتے؛ جب انہیں حکم دیتاہوں
اور جواب نہیں دیتے جب پکارتاہوں، تمہارا باپ مرجائے تمہیں اپنے
پروردگار کی مدد کرنے میں کس بات کا انتظار ہے؟ کیا دین
تمہیں اکٹھا نہیں کرتا اور کیا حمیت تمہیں نہیں
کھینچتی؟ میں تمہارے اندر کھڑے ہوکر پکارتا ہوں اور تمہیں
مدد کے لیے بلاتا ہوں مگر تم میری بات نہیں سنتے اور نہ میرا
حکم مانتے ہو۔“
دنیا سے بے رغبتی
آپ کی زندگی کا یہ پہلو
بھی بڑا ہی تابناک ہے کہ ان کے اندر دنیا سے بے رغبتی اور
خشیت الٰہی کی موجیں ہر وقت ٹھاٹھیں مارتا رہتا
تھا۔ انھوں نے پوری زندگی اس سادگی سے گزاری اور
بسر کی کہ دیکھنے والوں کو تعجب ہوتا تھا۔ آپ کی سادگی،
نفس کشی اور دنیا سے بے رغبتی کا اندازہ کرنے کے لیے زید
بن وہب کی مندرجہ ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں، وہ کہتے ہیں
کہ:
”ایک بار حضرت علی رضی
اللہ عنہ اپنے گھر سے اس حال میں نکلے کہ ایک تہہ بند باندھے ہوئے تھے
اور ایک چادر سے جسم ڈھکے ہوئے تھے، تہ بند کو کپڑے کے ایک چیتھڑے
سے (کمربند کی جگہ) باندھ رکھا تھا، ان سے کہا گیا آپ اس لباس میں
کس طرح رہتے ہیں، تو فرمایا: یہ لباس اس لیے پسند کرتاہوں
کہ یہ نمائش سے بہت دور اور نماز میں عافیت دہ ہے اور مومن کی
سنت ہے۔“
ایک دوسری روایت میں
ہے جسے ابوعبیدہ نے عنترہ سے سنا ہے:
”میں خورنق میں علی ابن
ابی طالب کے پاس گیا، وہ ایک چادر اوڑھے ہوئے سردی سے
کانپ رہے تھے، میں نے کہا امیرالمومنین! اللہ نے آپ اورآپ کے
افراد خانہ کے لیے اس مال میں حصہ رکھا ہے اور آپ سردی سے کانپ
رہے ہیں۔ فرمایا: میں تمہارے مال میں سے کچھ نہیں
لیتا، میری یہی چادر ہے جس کو میں اپنے گھر
سے لیکر نکلا تھا۔“
بیت المال کی رقم سے احتراز
دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھی
جائے کہ حاکم وقت اپنی ذات پراور اہل و عیال پر کس قدر بے جا روپیہ
خرچ کرتے ہیں اور اپنی رعیت کا بالکل ہی خیال نہیں
کرتے اور گویا کہ پوری زندگی عیش کوشی اور لہو ولعب
میں بسر ہوتی ہے۔ بس آخری کوشش ہوتی ہے کہ کسی
طرح اعلیٰ منصب کو حاصل کیا جائے اور جب اس میں کامیاب
ہوجاتے ہیں تو خوف خدا ان کے دل سے نکل جاتا اور وہ ہر طرح کے اخلاقی
جرائم اور گناہ میں ملوث ہوجاتے۔ ایسے افراد کے لیے یہ
کہا جائے کہ وہ حضرت علی کا اخلاق و کردار اپنے اندر نافذ کریں اور ان
کے طریقہ حکومت پر عمل کریں۔حضرت علی نے اپنے پورے دور
خلافت میں ایک حبہ بھی بیت المال کا اپنی ذات پر
خرچ نہیں کیا، بلکہ بعض لوگوں نے ان کو ہدایا دئیے اسے بھی
خلق خدا کی امانت سمجھ کر بیت المال میں جمع کردیا۔
آپ نے بیت المال کی رقم کی اس طرح حفاظت کی کہ جس کی
نظیر نہیں ملتی۔ آپ کو ایک صاحب نے ہدیہ دیا
اور وہ ہدیہ کیاتھا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زبانی
ملاحظہ فرمائیں مگر اس کو بھی بیت المال میں پہنچادیا۔
آپ نے ایک خطبہ میں صراحت کی ہے:
”لوگو! اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی
معبود نہیں، میں نے تمہارے مال سے نہ تھوڑا لیا، نہ بہت سوائے
اس شے کے، اور جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکال
کر دکھائی، جس میں عطریا کوئی خوشبو تھی، حضرت علی
نے کہا مجھے ایک دہقان نے یہ ہدیہ دیا ہے۔ پھر وہ بیت
المال تشریف لے گئے اور کہا یہ لو۔ (وہ شیشی بیت
المال میں جمع کردی) اور یہ شعر پڑھنے لگے:
”افلح من کانت لہ قوصرة یأکل منہا کل یوم تمرة“
حضرت عائشہ اور علی جنگ جمل میں
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ابتدائی
عہد میں ہی جنگ جمل کا وہ اہم واقعہ پیش آیا جو تاریخ
اسلامی کا ایک اہم باب ہے۔ اس جنگ کی قیادت ایک
طرف سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کررہی تھیں تواس کی دوسری
طرف حضرت علی تھے۔ اس جنگ کے جو بھی اسباب و نتائج رہے ہوں اس
سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی حق پر
تھے۔ اور یہ بھی یاد آتا ہے کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے پیشین گوئی بھی فرمائی تھی
کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ حضرت عائشہ علی سے ناحق جنگ کریں
گی، جو اس جنگ میں ظاہر ہوئی، اس جنگ کے ایک خوش کن نتائج
یہ برآمد ہوئے کہ بقول امام ابوحنیفہ:
”حضرت علی حق پر تھے اوراگر حضرت علی
ان سے اس طرح کا معاملہ نہ کرتے تو کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ مسلمانوں کے درمیان
آپس میں جب اختلاف ہو تو کیا طرز عمل اختیار کیا
جائے۔“
اس جنگ میں حضرت علی نے حضرت عائشہ کے ساتھ جو اخلاق و
کردار کا مظاہرہ کیا اس کو دیکھ کر حضرت عائشہ ندامت کا اظہار کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں
کہ ”کاش میں یوم جمل سے پہلے دنیا سے رخصت ہوگئی ہوتی“
وہ جب بھی اس دن کو یاد کرتیں تو اس قدر روتیں کہ ان کا
دوپٹہ تر ہوجاتا۔
علی قاضی شریح کی عدالت میں
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی
زرہ اسی جنگ میں گم ہوگئی اوراسے ایک یہودی
کے ہاتھ میں دیکھی گئی، یہاں تک کہ یہ معاملہ
قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا، قاضی نے امیر
المومنین سے گواہ طلب کیا، علی نے حضرت حسن اور غلام قنبر کو گواہی کے لیے پیش
کیا مگر قاضی نے دونوں کی گواہی کو رد کردتے ہوئے فیصلہ
یہودی کے حق میں کردیا۔
اس واقعہ سے جو درس ملتا ہے وہ اسلامی
تعلیم کا شاہکار ہے جو حضرت علی کے ذریعہ ظہور ہوا۔ وہ خود قاضی کے پاس آئے اور
ان کے فیصلہ پر عمل کیا جو اخلاق و کردار کا اعلیٰ نمونہ
ہے۔ اس سے متاثر ہوکر یہودی نے نہ صرف زرہ واپس کردی بلکہ
کلمہ شہادت پڑھ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوگیا، مگر پھر حضرت علی
نے زرہ اسے واپس کردی اور یہ شخص ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا اور صفین
کے موقع پر شہید ہوا۔
اشاعت دین میں اخلاقی تعلیمات کی جلوہ گری
حضرت علی شیر خدا خلیفة المسلمین
ہیں، رعایا کی خبرگیری اور ان کی راحت رسانی
میں ہمہ وقت مصروف ہیں، مگر ان کا دل ہر وقت اس کے لیے مضطرب ہے
کہ کسی طرح سے ادع الیٰ سبیل ربک
بالحکمة والموعظة الحسنة اور کنتم خیر امة اخرجت للناس
تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتوٴمنون باللّٰہ کی تعلیمات پر عمل
ہوسکے۔ آپ نے اس فریضہ کی انجام دہی میں تلوار اور
قتل و خوں ریزی کو جائز و بہتر نہیں سمجھا بلکہ آپ نے اپنے
اخلاق اور مواعظ حسنہ کو ہی اولیت کا مقام دیا، جس کے اچھے
نتائج برآمد ہوئے۔ آپ کے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے علی میاں
ندوی لکھتے ہیں کہ:
”حضرت علی کوئی انتظامی امور کے حاکم اعلیٰ یا
اس طرح کے عرفی خلیفہ نہیں تھے، جیسے اموی و عباسی
خلیفہ تھے، بلکہ وہ شیخین (حضرت ابوبکر و عمررضی اللہ
عنہما) کے انداز و نہج کے خلیفة المسلمین تھے۔ مسلمانوں کے حقیقی
معنوں میں ولی الامر، معلم، مربی اور عملی مثال قائم کرنے
والے اخلاقی و دینی امور کی نگرانی اور احتساب کرنے
والے تھے، لوگوں کے رجحانات و خیالات و تصرفات پر نظر رکھتے کہ وہ کس حد تک
اسلامی تعلیمات اور رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ
کے مطابق ہیں،اور کہاں تک اس اسوہ سے دور اور منحرف اور کس حد تک انھوں نے
مغلوب اقوام اور مفتوحہ علاقوں کی تہذیب و تمدن کا اثر قبول کیا
ہے، آپ لوگوں کو نماز پڑھاتے۔ ان کو نصیحتیں فرماتے، دین
کے مسائل بتاتے اور دین کا فہم ان کے اندر پیدا کرتے۔ ان کو
بتاتے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے کیا چاہتا ہے، اور کن باتوں
کو پسند فرماتا ہے۔ آپ مسجد میں بیٹھتے، لوگ آپ کے پاس آیا
کرتے، اپنے معاملات میں مشورہ لیتے ، کوئی دینی
مسئلہ پوچھتا تو اس کو بتاتے، دنیاوی امور میں صلاح و مشورہ دیتے،
بازاروں میں چلتے پھرتے کاروباری لوگوں کی نگرانی کرتے کہ
کس طرح خرید و فروخت کرتے ہیں، انکو نصیحت فرماتے اور کہتے:
”اللہ سے ڈرو اور ناپ تول کا پورا لحاظ رکھو، لوگوں کا حق نہ مارو۔“
قاتل کے ساتھ اخلاق عالیہ کا مظاہرہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ دشمن کے زد
سے محفوظ نہ رہ سکے، یہاں تک کہ ابن ملجم نے زہرپلائی ہوئی
تلوار سے آپ پر ایسی ضرب لگائی کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔
مگر مرنے سے قبل ہی ملجم کو گرفتار کرلیاگیا، اور آپ کے سامنے
حاضر کیاگیا، اس کی شکل و صورت کو دیکھتے ہی آپ نے
حکم دیا کہ مقتول سے پہلے قاتل کی پیاس بجھائی
جائے۔ اس جملے میں کتنی معنویت اور اخلاقی تعلیمات
مضمر ہیں۔ یعنی کہ آپ کو بھی پیاس کی
شدت تڑپارہی ہے مگر حکم دیتے ہیں کہ پہلے میرے قاتل کی
پیاس بجھائی جائے، آپ کے اس اخلاق سے ملجم بہت شرمندہ ہوا، اس کے بعد
ابن ملجم کے حق میں اپنے بیٹے کو وصیت کی وہ حضرت علی
کے اخلاق کی اعلیٰ سے اعلیٰ مثال ہے اور یہ
صرف ان ہی کے لیے زیب دیتا ہے کہ آپ اپنے فرزند کو وصیت
کرتے ہیں کہ:
”اے عبدالمطلب کے فرزندو! مسلمانوں کا بے
تکلف خون نہ بہانا، تم کہوگے کہ امیرالمومنین قتل کردئیے گئے،
مگر خبردار سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا، دیکھو اگر میں
اس وار سے مرجاتاہوں تواس پر بھی ایک ہی وار کرنا، اس کا مثلہ
نہ کرنا، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے: خبردار کسی ذی روح کو مارکر اس کا مثلہ نہ کیا
جائے خواہ وہ کٹہا کتا ہی کیوں نہ ہو۔“
بلکہ آپ نے اس بات پر بھی زور دیا
کہ:
”اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا
جائے، اگر زندہ رہاتو سوچوں گا، معاف کروں یا قصاص لوں اور اگر مرجاؤں تو ایک
جان کا بدلہ ایک ہی جان لیاجائے، اس کا مثلہ ہرگز نہ کیا
جائے۔“
حضرت علی کے اخلاق و کردار کے مختلف پہلو اور اس کا اثر
اس سے پہلے کہ ہم نہج البلاغہ کے اقتباس کی
روشنی میں حضرت علی کے افعال و کردار اور ان کے اعلیٰ
اخلاقی اقدار کو پیش کریں ضروری ہے کہ حضرت علی کے
معاصر ضرار بن مضمر نے حضرت ابوسفیان کے اصرار پر مندرجہ ذیل تاثر بیان کیا اور ان
کے انتقال کو مسلمانوں کے لیے ایک خطرہ قرار دیا اور ان کی
حیات مسلمانوں کے لیے نعمت عظمی بتاتے ہوئے ان کے اخلاق و کردار
پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے بیان کیا
کہ:
”ان کی نظر انتہائی دور رس تھی،
ان کے قویٰ انتہائی مضبوط تھے، بات دو ٹوک اور صاف کہتے اور فیصلے
پورے عدل و انصاف کے ساتھ کرتے، ان کی شخصیت سے علم کے چشمے ابلتے
تھے، دنیا اور دنیا کی دل آویزیوں سے متوحش رہتے،
رات اوراس کی تاریکی سے دل لگاتے تھے، خدا گواہ ہے کہ (راتوں کو
عبادت میں) ان کے آنسو تھمتے نہ تھے، دیر دیر تک فکرمند اور
سوچتے رہتے، اپنے کف دست کو الٹتے پلٹتے اور اپنے آپ باتیں کرتے، موٹا جھوٹا
پہنتے، روکا سوکھا کھاتے، بخدا بالکل اپنے ہی ساتھیوں اور بے تکلف
لوگوں کی طرح رہتے، جب کچھ پوچھا جاتا جواب دیتے، جب ان کے پاس جاتے
تو خود بڑھ کر باتیں شروع کرتے، جب بلاتے تو حسب وعدہ آجاتے، لیکن ہم
لوگوں کو (باوجود اس قربت اور رفاقت اور ان کی سادگی کے ان کا رعب ایسا
تھا کہ) ان کے سامنے بولنے کی ہمت نہ ہوتی اور نہ کوئی گفتگو چھیڑتے،اگر
وہ مسکراتے تو آپ کے دندان ایسے نظر آتے جیسے سفید موتیوں
کی لڑی ہو، دینداروں کی توقیر کرتے، مساکین
سے محبت کرتے کسی طاقتور انسان کی یہ جراء ت نہ تھی کہ ان
سے باطل کی تائید میں توقع رکھتا اور کوئی کمزور ان کے
عدل و انصاف سے مایوس نہ ہوتا۔ اور میں اللہ کو گواہ بناکر کہتا
ہوں کہ میں نے ان کی راتوں کے چند مناظر دیکھے ہیں کہ رات
نے اپنی سیاہ چادر پھیلادی ہے، تارے ڈوبنے لگے ہیں
اور علی محراب مسجد میں اپنی داڑھی ہاتھ سے پکڑے درد بھرے
شخص کی طرح رورہے ہیں اوراس طرح تڑپ رہے ہیں جیسے کوئی
ایسا شخص تڑپے جس کو کسی زہریلے سانپ یا بچھو نے ڈس لیاہو،
مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کی آواز اب بھی سنائی دے رہی
ہے، اور وہ کہہ رہے ہیں:
”اے دنیا کیاتو مجھ سے چھیڑ
چھاڑ کررہی ہے یا مجھ سے کوئی امید رکھتی ہے؟ مجھ
سے کچھ امید نہ رکھ، میرے علاوہ کسی اور کو فریب دے، میں
تو تجھے تین طلاقیں دے چکا ہوں، جس کے بعد تیری طرف رجعت
کی گنجائش ہی نہیں، تیری عمر کوتاہ، تیری
دی ہوئی کامرانی حقیر، تیرے خطرات بھیانک اور
بڑے آلودہ، آہ! زاد راہ کتناکم ہے، سفر کتنا طویل ہے اور راستہ کس درجہ
سنسان ہے۔“
اس تاثر کو روایت کرنے والے ابوصالح
ہیں کہتے ہیں کہ:
”یہ سن کر معاویہ کی آنکھوں سے
آنسو جاری ہوگئے اوراس کے قطرے ان کی داڑھی پر گرنے لگے، اپنی
آستین سے وہ آنسو پونچھتے، اور رونے سے آواز حلق میں گھٹنے لگی،
پھر معاویہ نے کہا: اللہ ابوالحسن پر رحم فرمائے، واقعی ان کا یہی
حال تھا، ضرار تم اپنا حال کہو ان کی جدائی سے کیا محسوس کرتے
ہو؟ کہا: مجھے ایسا غم ہے جیسا اس عورت کو ہوگا جس کا بچہ اس کی
گود میں ذبح کردیاگیا ہو، اور نہ اس کے آنسو تھمتے ہوں، نہ غم
ہلکاہوتا ہو۔“
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10-11،
جلد: 89 ، رمضان، شوال 1426ہجری
مطابق اکتوبر، نومبر 2005ء